امن ہو یا جنگ امریکا ہمیشہ عالم اسلام اور مسلمانوں سے تعلقات مستحکم کرنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔ اوباما نے قاہرہ کانفرنس میں ہر سطح پر روابط بڑھانے اور بات چیت کرنے کے عزم کا اظہار اسی پالیسی کے تحت کیا تھا۔ امریکا اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہرگز نہیں ہے۔“ یہ الفاظ امریکی صدر مسٹر بارک اوباما کی مشیر برائے مذہبی امور ”فرخ انور پنڈت“ کے ہیں جو انہوں نے دورہٴ پاکستان کے دوران کہے۔ کراچی میں جامعہ بنوریہ اور جامعہ کلفٹن میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا دینی اور دنیاوی تعلیم میں کوئی تضاد نہیں۔ دینی مدارس اسلام اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں۔ فرخ انور پنڈت نے مزید کہا امریکا اسلام اور مسلمان ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہرگز اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اس حوالے سے امریکی حکومت مسلمان علما کو اعتماد میں لے کر باہمی تعلقات کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ مغرب اور مسلم اُمہ کے درمیان ایک سازش کے تحت دوریاں پیدا کی جارہی ہیں۔ ہم کوشش کررہے ہیں اس خلیج اور دوری کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے امریکی صدر اوباما کی پالیسیوں اور موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا پہلے امریکی حکومت صرف بحران کی صورت میں اور برے وقت میں حکومت کی سطح پر رابطہ یا مذاکرات کرتی تھی، امن کی حالت میں بات چیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ امریکی صدر کی پالیسی ہے امن ہو یا جنگ، حکومت اور عوامی ہر سطح پر عالم اسلام کے ساتھ باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہیے۔ نوجوان نسل پر خصوصی توجہ دینا چاہتے ہیں۔ امریکی صدر مسلم علماء سے براہِ راست بات چیت کے خواہاں ہیں۔“ قارئین! امریکا ایک طرف تو مذکرات اور افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ،ان کے لیے امتیازی قوانین بنائے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے شب خون مارا جارہا ہے۔ دنیا میں امن وامان کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کا چہرہ کس قدر خون آلود ہے؟ سب جانتے ہیں۔ امریکا 1890ء سے 2010ء تک 120 سالوں میں اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر 75 کے قریب آزاد ممالک پر فوج کشی کرچکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک 28 ممالک پر براہِ راست بمباری کرچکا ہے۔ اس بمباری میں اس نے جدید ترین اسلحہ اور بم نہایت ہی بے دردی سے استعمال کیے، جس میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ 1989ء میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کے تو وہ دیر ہوگیا۔ ”نیو ورڈ آڈر“ پر عمل کرتے ہوئے نوے کی دہائی میں خلیج جنگ چھیڑکر اپنے بھیانک منصوبوں کی تکمیل کی۔ 1998ء سوڈان پر حملہ کیا۔ 1998ء میں کلنٹن کے حکم پر امریکا نے افغانستان پر میزائلوں سے حملے کیے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر پہلے ہلکی بمباری کی۔ آخر میں افغانستان پر ڈیزی کٹر جیسے انتہائی مہلک بم پھینکے۔ بی-52 نامی انتہائی جدید اور سبک رفتار طیارے استعمال کیے گئے۔ 2003ء میں عراق پر تاریخ کا بدترین حملہ کیا ۔ ان حملوں میں ایک اندازے کے مطابق بارہ لاکھ عراقی،6لاکھ افغان سمیت بائیس لاکھ افراد تک ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ اس امریکا کے مکروہ چہرے کی جھلک ہے جو اس وقت امن کا چمپئن بنا بیٹھا ہے۔ جس کے پیٹ میں آزادی وحریت کے لیے لڑنے والے عراقیوں، افغانوں، کشمیریوں، فلسطینیوں، یمنیوں اور دیگر مجاہدین اسلام کی کوششوں سے مروڑ اُٹھتے ہوں۔ امریکا کو اسرائیلی، بھارتی اور خود اپنے ملک کے دہشت گرد نظر نہیں آتے۔ استعماری عزائم رکھنے والوں کو صرف پاکستان کا ایٹمی پروگرام جو اپنے دفاع کے لیے ہے، بری طرح کھٹک رہا ہے۔ ایران کا ایٹمی پروگرام جو ابھی تک بنا ہی نہیں ہے، خوفناک دکھائی دیتا ہے لیکن صہیونیوں کے پاس 260 سے زائد تیار پوزیشن میں ایٹم بم نظر نہیں آتے۔ سب جانتے ہیں اسرائیلی استعماری عزائم رکھتا ہے۔ وہ اپنی سرحدیں دریائے نیل سے دجلہ وفرات تک بتاتا ہے اور گریٹر اسرائیل کی طرف قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے۔ یہودوہنود اور دیگر عالمی طاقتوں نے مل کر اسلام، مسلمانوں اور عالم اسلام کو مشق ستم بنارکھا ہے۔ حالیہ دنوں جو توہین آمیز خاکے دوبارہ شائع ہوئے ہیں، اس کے پیچھے بھی یہودی لابی ہی کام کررہی ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی واردات کہیں بھی ہو، کوئی بھی کرے اس کے تانے بانے مسلمانوں اور مسلم ممالک کے ساتھ ہی ملائے جاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں دہشت گردی اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نتھی کیا جارہا ہے۔ اسلام کو دہشت گردی کی تعلیم دینے والا مذہب اور قرآن کو دہشت گردی کا منبع قرار دینے کی مذموم کوششیں عروج پر ہیں۔ عالمی طاقتیں ایک طرف تو بین المذاہب رواداری کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں تو دوسری طرف اسلام کی روشنی کے مینار دینی مدارس، علما وصلحا اور دین دار طبقے کے خلاف پروپیگنڈا مہم جاری ہے۔ مغربی میڈیا میں ان کی تضحیک اور کردار کشی کی جارہی ہے۔ دینی اداروں کو چندہ دینے والوں کی انکوائریاں ہورہی ہیں۔ ان پر الزامات لگائے جارہے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کو فنڈز فراہم کررہے ہیں۔ ناانصافی تو ملاحظہ کیجیے اگر کوئی شخص عیسائیت کے فروغ کے لیے خطیر رقم دیتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کے کارنامے کو سراہا جاتا ہے۔ کوئی یہودیت کے فروغ اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھولتا ہے تو عظیم شخص قرار پاتا ہے لیکن اگر کوئی مسلمان کسی مذہبی فلاحی ادارے، دینی مدارس اور اسلام کی ترویج وتبلیغ کے لیے دوچار لاکھ ہی دیدے تو اس پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کرکے گوانتا ناموبے جیسے عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے سابق امریکی صدر بش نے 2003ء میں امریکا کے صدر بش نے دنیا بھر میں عیسائیت کی ترویج کے لیے مشنری تنظیموں کو فنڈ فراہم کرنے کے لیے وہائٹ ہاؤس میں ”Faith-Based and Community Initiatives“ نامی ڈپارٹمنٹ قائم کیا تھا۔ اس کے ڈائریکٹر ”جم ٹووی“ کو امریکی سوسائٹی کو کٹر عیسائی مذہبی معاشرے میں تبدیل کرنے کا ہدف سونپا گیا تھا۔ انہوں نے 10 ہزار 5 سو 18 عیسائی تنظیموں کو ایک ارب 70 کروڑ ڈالرز فراہم کیے تھے۔ یہ کیسا فلسفہ ہے اگر ایک کام صدر بش عیسائیت کی ترویج کے لیے کرے تو اچھا ہے لیکن اگر کوئی صاحبِ ثروت مسلمان، اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے کرے یا کسی دینی مدرسے کو چندہ بھی دے تو اس کی انکوائریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کا رشتہ ناتہ مبینہ دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ کیسی ناانصافی ہے اگر کوئی ”ہولوکاسٹ“ پر لکھے یا بولے تو وہ قابلِ گرفت ہے لیکن اگر کوئی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی معززترین ہستیوں کے بارے میں شرانگیزی کرے تو اس کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ 1988ء میں ”وائی کنگ پیلی کیشنز“ کے یہودی ادارے نے ”شیطانی آیات“ کے نام سے بدنامِ زمانہ کتاب لکھی توکچھ نہ ہو لیکن جب ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے دنیا کی صرف 0.23 فیصد آبادی یہودیوں کے بارے میں ذرا الفاظ کہے تو ان کو یورپ و امریکا کی طرف سے دھمکیاں ملنے لگیں اور ان کے خلاف میڈیا پر پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔ اگر امریکا اور برطانیہ کے اہم لوگ اور شہزادے عراق اور افغانستان کے محاذوں پر مذہبی فریضہ سمجھ کر جنگ میں حصہ لیں تو مستحسن اور لائق تعریف، ان کی کارکردگی مثالی اور شاندار لیکن اگر کوئی مسلمان شہزادہ اس میں شریک ہو تو اسے عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے شدت پسند اور دہشت گرد جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ فرق کیوں؟ جنگ تو جنگ ہے۔ اس میں شریک اسامہ دہشت گرد ہے تو افغانستان میں جارح افواج کے ہمراہ آنے والے ہیری کو بھی مردِ حر نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر یہ جنگ صلیبی اور مذہبی ہے تو پھر اس میں حصہ لینے والے خواہ وہ کوئی بھی ہو ان پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ عالمی طاقتیں ایک طرف تو لندن میں جمع ہوکر اعلان کرتی ہیں کہ جنگ بہت ہوچکی اب طالبان سے مذاکرات ہونے چاہیے، مذاکرات کے لیے طالبان کو پیغامات بھی بھجوادیے جاتے ہیں لیکن پھر اگلے ہی ہفتے طالبان کے مضبوط ٹھکانے ”ہلمند “پر تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن شروع کردیا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب کی یہی دوغلی پالیسی ہے جو ان کے لیے نفرت اور عداوت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کا یہی دوہرا معیار ہے جوان کے رواداری کے دعووں کی قلعی کھول رہا ہے۔ ”فرح انور پنڈت“کو چاہیے وہ امریکی حکمرانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کریں جب تک اسلام، مسلمانوں اور عالم اسلام کے ساتھ یہ امتیازی سلوک اور ناانصافیاں ختم نہیں ہوجاتیں اس وقت تک دنیا یونہی دہکتا انگارہ بنی رہے گی۔ رواداری کا ڈھنڈورا تو پیٹا جاتا رہے گا لیکن مغرب اور مشرق میں کشیدگی بڑھتی ہی رہے گی۔
Welcome
Welcome to my blog. I would write on Pakistani issues and some other areas that have appeared in media, how the international media is reviewing Pakistan. Islamic information, breaking news, articles, columns of leading Pakistani columnists, blogging tips, health tips, Jobs, education information, IT information, latest software will also be included in this blog. Your comments and emails about any post will also be respected.
15 February, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment